نظم علم
سعادت ، سیادت ، عبادت ہے علم
حکومت ہے دولت ہے، طاقت ہے علم
یہ پوچھو کسی مرد مختار سے
قلم تیز چلتا ہے تلوار سے
پسر علم و فن سے اگر دور ہے
پدر کی وہ اک چشم بے نور ہے
جو لاڈوں سے بگڑا ہوا پوت ہو
کبھی اولیا ہو کبھی بھوت ہو
نہ پھولوں کی سیجوں پہ آتا ہے علم
نہ ورثے میں انسان پاتا ہے علم
دلوں میں بھرو علم کا مال و زر
نہ قاروں کا خطرہ نہ چوروں کا ڈر
بڑھے علم انساں کا تعلیم سے
کہ دولت یہ دگنی ہو تقسیم سے
اگر پوچھنے میں کرو گے حجاب
تو پڑھتے رہو گے جہالت کا باب
جہالت سے انساں مصیبت اٹھائے
اندھیرے میں جو جائے ٹھوکر ہی کھائے
ہدایت کی مشعل ہیں علم و ہنر
جہالت ہے خطرہ جہالت ہے ڈر
اگر خاک پر پھونک مارے جہول
تو جھونکے گا اپنی ہی آنکھوں میں دھول
نظر ہو تو جوہر کے جوہر کہے
ہے اندھا جو ہیرے کو کنکر کہے
ہے جاہل کو نیکی بدی بات ایک
بھلا مرد جاہل کا ایمان کیا
کہ اندھے کو رنگوں کی پہچان کیا
گدھے کو اڑا دیں جو مخمل کی جھول
دلتی چلانا جائے گا بھول
بہت لوگ باتوں میں لقمان ہیں
کمل میں جو دیکھو تو نادان ہیں
علاج جراحت کو خاذق وہ چن
اس طبع میں جس کے یہ چار گن
طر بازار کی سر افلاطون کا
ہو بدر کی طرح حاصل کمال
اوروں کو ظلمت سے باہر نکال
جو سیکھو کسی کو سکھاتے چلو
دئے سے دئے کو جلاتے چلو
No comments:
Post a Comment