بے تابیِِ دل کو مری تسکین نہیں ہے
کیوں دور مرا آج وہ زرین نہیں ہے
گردوں میں ہر اک سمت ہے کرگس کی اڑانیں
نظروں میں مری کوئی بھی شاہین نہیں ہے
پھولوں کی جگہ اگنے لگے جابجا کانٹے
نرگس نہیں گلزار میں نسرین نہیں ہے
تم لاکھ کردو عدل و مساوات کے دعوے
قرآن سے بڑھ کر کوئی آئین نہیں ہے
بدعات پہ ہم مٹنے لگے دین سمجھ کر
ہوں دین میں بدعات تو پھر دین نہیں ہے
یوروپ پہ تری یورش و یلغار تھی اک دن
ہاتھوں میں ترے آج فلسطین نہیں ہے
کیا دل میں ترے ذوقِ شہادت نہیں افضل
کیوں جامہ ترا خون سے رنگین نہیں ہے
No comments:
Post a Comment