جوبن جوانی جوش مرے خواب لے گیا
جو کچھ تھا میرے پاس وہ سیلاب لے گیا
دریا کو ناپسند تھیں شاید رفاقتیں
چوپال لے گیا مرے احباب لے گیا
بت خانہ ڈوب جائے تو اس کا بھی ہےملال
ساون تو اب کہ منبر و محراب لے گیا
بستی میں اس کا گھر بھی تو شامل تھا دوستو
سیلاب مجھ سے جینے کے اسباب لے گیا
کونے میں رکھ گیا ہے مجھے ہجر کا غبار
یعقوب کی طرح میرے اعصاب لے گیا
تنویر سوچتا ہوں میں الزام کس پہ دوں
چہروں سے آ ج کون تب و تاب لے گیا
تنویر شاہد محمد زئی
No comments:
Post a Comment