یہ جذبۂ طلب تو مرا مر نہ جائے گا
تم بھی اگر ملوگے تو جی بھر نہ جائے گا
یہ التجا دعا یہ تمنا فضول ہے
سوکھی ندی کے پاس سمندر نہ جائے گا
جس زاویے سے چاہو مری سمت پھینک دو
مجھ سے ملے بغیر یہ پتھر نہ جائے گا
دم بھر کے واسطے ہیں بہاریں سمیٹ لو
ویرانیوں کو چھوڑ کے منظر نہ جائے گا
یوں خوش ہے اپنے گھر کی فضاؤں کو چھوڑ کر
جیسے وہ زندگی میں کبھی گھر نہ جائے گا
اس کو بلندیوں میں مسلسل اچھالیے
لیکن وہ اپنی سطح سے اوپر نہ جائے گا
شہر مراد مل بھی گیا اب تو کیا حیاتؔ
مایوسیوں کا دل سے کبھی ڈر نہ جائے گا
حیات لکھنوییوم پیدائش 27 فروری 1931
یہ جذبۂ طلب تو مرا مر نہ جائے گا
تم بھی اگر ملوگے تو جی بھر نہ جائے گا
یہ التجا دعا یہ تمنا فضول ہے
سوکھی ندی کے پاس سمندر نہ جائے گا
جس زاویے سے چاہو مری سمت پھینک دو
مجھ سے ملے بغیر یہ پتھر نہ جائے گا
دم بھر کے واسطے ہیں بہاریں سمیٹ لو
ویرانیوں کو چھوڑ کے منظر نہ جائے گا
یوں خوش ہے اپنے گھر کی فضاؤں کو چھوڑ کر
جیسے وہ زندگی میں کبھی گھر نہ جائے گا
اس کو بلندیوں میں مسلسل اچھالیے
لیکن وہ اپنی سطح سے اوپر نہ جائے گا
شہر مراد مل بھی گیا اب تو کیا حیاتؔ
مایوسیوں کا دل سے کبھی ڈر نہ جائے گا
No comments:
Post a Comment