تم نے ہی تو گرائی تھیں مجھ پر یہ بجلیاں
دینے کو آ رہی ہو مجھے کیوں تسلیاں
سونے سی تھی کھری میں چمک برقرار تھی
پھر کیوں ہزار بار لیں میری تلاشیاں
نکلے جو آشیاں کو گرانے کبھی مرے
گرنے لگی ہے آج انہیں پر یہ بجلیاں
سلجھایا جتنا اتنی ہی الجھی یہ زندگی
اس زندگی کی حل نہیں ہوتی پہیلیاں
شائستگی محبتیں الفت وفا حیا
رکھی ہے میرے پاس تری سب نشانیاں
کرتا نہیں ہے کوئی محبت یہاں ہمیں
آتی ہے روز روز ہمیں کیوں یہ ہچکیاں
شائستہؔ یاد تجھ کو کرے کب تلک بتا
اب چاہیے مجھے تری یادوں سے چھٹیاں
No comments:
Post a Comment