بڑی لطیف کشش تھی حسیں پناہ میں تھا
کھلی جو آنکھ تو میں اپنی خواب گاہ میں تھا
حدیث عہد مسرت مری نگاہ میں تھی
کہ ایک پیکر رعنا دل تباہ میں تھا
تلا ہوا تھا کبھی جان لینے دینے پر
عجیب رنگ وفا اس کے انتباہ میں تھا
مری حیات ہی قاتل سہی مگر مطربؔ
بڑے سکون سے میں اپنی قتل گاہ میں تھا
No comments:
Post a Comment