نظر سے کہہ دو نہ سونپے زباں کو اپنی بات
نگاہ ِ عام میں ہوگی نہیں یہ اچھی بات
وہ ایک بات جو ہم دونوں کر گئے محسوس
زمانہ اس کو سمجھتا ہے بے تکی سی بات
فسانہ وقت کا سنتا ہے آدمی لیکن
سنے نہ وقت کبھی رُک کے ، آدمی کی بات
گو اچھی بات ہے آہستہ بولیے پھر بھی
کہیں پڑوس میں پھیلے نہ الٹی سیدھی بات
خلوص ، جذبہ ء ایشار ، اتحاد ، وفاؔ
مرے شعور میں آئی ہے کس صدی کی بات
وفا سکندر پوری
No comments:
Post a Comment