ممکن نہیں الفت کا ہو اظہار غزل میں
کرتی ہوں مگر بات میں ہر بار غزل میں
بھیجا تو ہے خط اس نے مگر سادہ ورق ہے
انکار غزل میں ہے نہ اقرار غزل میں
صحرا کا فسانہ ہو یا جنگل کی کہانی
یہ تذکرے بن جاتے ہیں گلزار غزل میں
اس دور کا حاصل ہے فقط ضبطِ قلم ہی
ہے سوز نہ اب ساز نہ جھنکار غزل میں
ہے غور طلب بات یہی بزمِ سخن میں
بازاروں میں غزلیں ہیں کہ بازار غزل میں
رضیہؔ ہو مبارک تمہیں معراجِ سخن یہ
فطرت کا نظر آتا ہے کردار غزل میں
No comments:
Post a Comment