آج ان کی بزم میں اپنے ذرا لب کھولیے
ان سے کھل کر بات کیجے ، چپ نہ رہیے ، بولیے
سادگی سے کتنی ہم راہِ وفا پر ہولیے
وہ ملے تو ہنس لیے جب وہ گئے تو رولیے
جالیا ہم نے بھی منزل کو پر اس انداز سے
بے خودی میں چل پڑے جب ہوش آیا ہولیے
خوشنما تھے کس قدر وہ خار ، اکثر ہم نے جو
عشق کی راہوں سے چن کر اپنے دل میں بو لیے
آخرش دیوانگی کو ہم نے اپنا ہی لیا
آخرش عقل و خرد سے ہاتھ اپنے دھو لیے
ان کٹھن راہوں پہ بھی ہم مسکراتے ہی رہے
جب ہزاروں غم کے ساتھی ساتھ اپنے ہولیے
زندگی کی راہ میں جب آئے کچھ دلکش مقام
ہم ذرا سی دیر ٹھہرے اور آگے ہولیے
خار بن کے زندگی بھر روح میں چبھتے رہے
ہم نے رومانوں کی پھلواری سے غنچے جو لیے
آنسوؤں کے پاک سرچشموں پہ ہم نے بارہا
حسرتوں کے اور تمناؤں کے دامن دھو لیے
ان تضادوں سے ہی لطفِ زندگی قائم رہے
روتے روتے ہنس پڑے اور ہنستے ہنستے رولیے
فصلِ گل کے اوّلیں رنگیں شگوفوں میں ظفر
آپ بھی اپنی بیاضِ شاعری کو کھو لیے
No comments:
Post a Comment