وہ کیا کریں کہ اپنی حماقت سے تنگ ہیں
جو لوگ میری ذات کی شہرت سے تنگ ہیں
راہ طلب میں خیر و خبر کس کی کون لے
سب لوگ اپنی اپنی ضرورت سے تنگ ہیں
کترا رہا ہے ہر کوئی اپنوں سے غیر سے
جو مل گئے تو سب کی شکایت سے تنگ ہیں
تاریکیاں گھنیری ہیں جگنو بھی کیا کرے
رستے اندھیری رات کی ظلمت سے تنگ ہیں
کیا ہی مزے کی بات ہے راقمؔ یہاں کے لوگ
خوددار آدمی کی شرافت سے تنگ ہیں
No comments:
Post a Comment