عجز و خلوص جب مرے پیکر میں آ گیا
سارا کمال پھر مرے دفتر میں آ گیا
دل کا تھا باب گرچہ مقفّل وہ اجنبی
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"
اس آسماں نے مجھ پہ مصیبت جو توڑ دی
میرا وجود کرب کے محور میں آگیا
میں منتظر رہی کوئی مشقِ ستم تو ہو
وہ مصلحت شناس کہ لشکر میں آگیا
میری وفا پہ تم کو جو کچھ اعتبار تھا
تو کیسا انقلاب یہ تیور میں آگیا؟
وہ میری زندگی کی تمنا، وہ میری جان
بگڑا تو پھر زمانے کی ٹھوکر میں آگیا
میرے ہر ایک لفظ، مری سوچ کا محل
بے لوث آج دامنِ دلبر میں آگیا
کس کو رمیشا ؔدرد کا انبار چاہیے
جتنا ہنود قسمتِ دختر میں آگیا
No comments:
Post a Comment