شامِ غم کو رات بھر کا آسرا مل جائے گا
شہر میں کوئی نہ کوئی در کھلا مل جائے گا
سر سے پا تک اَٹ گیا ہوں راستے کی دھول میں
میں نے یہ سوچا تھا تیرا نقشِ پا مل جائے گا
شب گئے تک میں نہیں لوٹا تو میرے ہم سفر
غم کے خالی پن سے غم دہلیز کا مل جائے گا
میں نے کتنے موڑ کاٹے ہیں اسی امید پہ
زندگی شاید کہیں تیرا پتا مل جائے گا
غم کے دریاؤں کا رخ تنہا مری جانب نہیں
اور بھی کوئی یہاں ہنستا ہوا مل جائے گا
میں زمیں سے آسمانوں تک گیا ہوں آفتاب
کیا وہی جو پہلے میرے ساتھ تھا مل جائے گا
No comments:
Post a Comment