اُداسی غزل گنگنانے لگی ہے
مجھے حال میرا بتانے لگی ہے
ہر اک لفظ میں گڑبڑاہٹ ہے اُتری
سکوں,وحشتِ دل مٹانے لگی ہے
جہاں میں کوئی بھی بُرا کب رہا ہے
انا میری جب سے ٹھکانے لگی ہے
دمِ آخری ہے،کہے جا رہی ہوں
مجھے زندگی اب گنوانے لگی ہے
خرد کا جنوں سے نہیں ہے تعلق
نگاہ ولی یہ بتانے لگی ہے
ملمّع بناوٹ کا وقتی سہی پر
دکان ریا جگمگانے لگی ہے
کُھلے زخم سی کر یہاں ایک لڑکی
لباس خودی کو بچانے لگی ہے
No comments:
Post a Comment