جس تصوف میں خود نمائی ہے
وہ عبادت نہیں خدائی ہے
وہ سزاوارِ پارسائی ہے
جس کی فطرت میں بے ریائی ہے
کچھ جو میری سمجھ میں آتی ہے
زندگی موت کی دہائی ہے
قید ہستی سے جو رہائی ہے
خیر مقدم کو مرگ آئی ہے
روزِ اوّل سے جانتا ہوں اُنھیں
ان سے دیر ینہ آشنائی ہے
اللہ اللہ ، خالق و مخلوق
صفر سے نسبتِ اکائی ہے
ہمیں تیرا نشاں ملے نہ ملے
آرزوئے شکستہ پائی ہے
سدرۃ المنتہی سے بھی گزرے (صلی اللہ علیہ وسلم)
اللہ اللہ کیا رسائی ہے
غم وہ تحریر ہے محبت کی
خونِ دل جس کی روشنائی ہے
ہائے اس بے نیاز کی دُنیا
جس میں نمرود کی خدائی ہے
تنگ اسلاف ہوں ، معاذ اللہ
توبہ توبہ یہ بے وفائی ہے
جو برائی ہے میری اپنی ہے
اُن کا صدقہ ہے جو بھلائی ہے
دل کے ساغر سے پی رہا ہوں نفیس
وہ جو پثرب سے کھنچ آئی ہے
No comments:
Post a Comment