رات خوابوں میں برستے رہے پتھر کتنے
پر بنے شیش محل ذہن کے اندر کتنے
میں اترتا گیا الفاط کی گہرائی میں
مجھ کو ملتے رہے افکار کے جوہر کتنے
شب کی آنکھوں میں رہی نیند کی مستی پھر بھی
اشک کی سیل بہا لے گئی دفتر کتنے
کامراںؔ موسمِ تنہائی بھی کیا موسم تھا
برف باری تھی اور آنکھوں میں تھے منظر کتنے
No comments:
Post a Comment