مثلِ گل کھل کے بکھرتے تو محبت کرتے
تم کسی دکھ سے گزرتے تو محبت کرتے
جن کو رغبت رہی بستی کے گلی کوچوں سے
دشت کی رہ سے گزرتے تو محبت کرتے
عشق میں ہوتی نہیں کوئی انا نام کی چیز
سر کو دہلیز پہ دھرتے تو محبت کرتے
تم کو ہر آن زمانے کی پڑی رہتی ہے
تم زمانے سے نہ ڈرتے تو محبت کرتے
تم کو دنیا کے بکھیڑوں نے اجازت ہی نہ دی
اک نظر مجھ پہ جو کرتے تو محبت کرتے
خواب تو دیکھ لیا کچی بہاروں میں مگر
خواب کے رنگ نکھرتے تو محبت کرتے
تم نے تو اپنی الگ دنیا بسا رکھی ہے
گر کسی شخص پہ مرتے تو محبت کرتے
اپنی ہی ذات میں سمٹے ہوئے رہتے ہو صدا
تم مری رہ میں بکھرتے تو محبت کرتے
آۂینہ ٹوٹ گیا جذبۂ دل کا شفقت
ہم اگر اس میں سنورتے تو محبت کرتے.
No comments:
Post a Comment