جسے دیکھو درندہ سا لگے ہے
یہ سارا شہر تو صحرا لگے ہے
نہ چھت اپنی نہ یہ دیوار اپنی
نہ در اپنا نہ گھر اپنا لگے ہے
خدا ہی جانتا ہے حال اس کا
وہ کیا ہے اور مجھ کو کیا لگے ہے
کوئی تو بات ہے اس آدمی میں
برا ہو کر بھی جو اچھا لگے ہے
نہ جانے دوریاں کیوں بڑھ گئی ہیں
جو اپنا تھا پرایا سا لگے ہے
شرد کی پورنیما میں تاج کا حسن
بڑا دل کش بہت پیارا لگے ہے
حدیث دل سناتے کیوں نہیں اب
یہ قصہ کیا فسانہ سا لگے ہے
وہ جانے سوچتا رہتا ہے کیا کیا
اسے یہ دنیا جانے کیا لگے ہے
No comments:
Post a Comment