ہماری آنکھ سے روٹھا ہوا ہے
جو منظر جھیل پر ٹھہرا ہوا ہے
دِکھاتا تھا کبھی سورج کو آنکھیں
جو تیرے دھیان میں ڈوبا ہوا ہے
گزرتی جا رہی ہے فصلِ گل اور
پرندہ شاخ پر بیٹھا ہوا ہے
وہاں تک ہے محبت کی حکومت
جہاں تک آسماں پھیلا ہوا ہے
نہیں یہ شخص تو ویسا نہیں تھا
محبت میں اسے دھوکہ ہوا ہے
No comments:
Post a Comment