اسے اس سر زمیں پہ میرا اک اعلان لے آیا
ملی صحبت اسے ایسی کہ وہ ایمان لے آیا
قلندر کی یہ دھرتی ہے اسی دھرتی کو نفرت میں
تباہی کے دہانے پر نیا سلطان کے آیا
کسی بھی ظرف والوں ک لہو باغی نہیں ہوتا
مرے گھٹنوں پہ اس کو کھینچ کے احسان لے آیا
اتر پایا نہ اس کے وصل کی ندی کے پانی میں
کہاں تھی جسم کی کشتی کہاں طوفان لے آیا
میں اس کی روح کا شاعر شفیق ایسے نہ بن بیٹھا
طلب اک شعر کا تھا اور میں اک دیوان لے آیا
No comments:
Post a Comment