پردہ کسی کا کیوں مری بینائی سے اُٹھے
خوشبو سہانی راتوں میں تنہائی سے اُٹھے
احساس مجھ کو جانے کہاں لے کے اُڑ گیا
پتوں کے سوکھے ڈھیر جو انگنائی سے اُٹھے
جلتی رہی خموش فضاؤں کے درمیاں
انگلی نہ مجھ پہ وقت کی رُسوائی سے اُٹھے
لفظوں میں لے کے آئے وہ موجوں کا اضطراب
طوفان بن کے ذہن کی گہرائی سے اُٹھے
پتھر ہٹا دو غار سے زندہ ہوں میں ابھی
ایسا نہ ہو کہ لاش بھی تنہائی سے اُٹھے
بولوں تو ٹوٹ جائے گی برسوں کی خامشی
دیکھوں تو درد روح کا بینائی سے اُٹھے
خوشبو نسیم اپنی چھپائے گی کس طرح
کہتے ہو تم نگاہ بھی دانائی سے اُٹھے
No comments:
Post a Comment