مطلب کے سانچے میں ہے ڈھلا پیار آجکل
حرص و ہوس میں سب ہیں گرفتار آجکل
واعظ کو وعظ سے ہے سروکار آجکل
کیوں دور ہوگیا ہے یہ کردار آجکل
اس دور کی لغت میں تو معنی بدل گئے
مکار کو کہے ہیں یہ ہشیار آجکل
سارے یہ فن جہاں کے یوں بیکار ہو گئے
اب ہو گیا فریبی بھی فنکار آجکل
انسان بھوک سے بھی مرے کچھ بھی غم نہیں
لازم ہے ملک کے لئے ہتھیار آجکل
قانون کو پڑھا ہے یہ قانون توڑنے
قانون توڑنے میں مدد گار آجکل
لیڈر بھی بن رہے ہیں وہ دنیا تیاگ کر
بھارت میں سادھو سنت چمتکار آجکل
تعلیم مل رہی ہے یہ تہذیب کھو گئی
ذہنوں سے ہو گئے ہیں یہ بیمار آجکل
اُس قوم کے نصیب میں بربادی کیوں نہ ہو
اب ہر گلی میں ایک ہے سردار آجکل
پنڈت ہو پادری ہو یا ہو مولوی نظر
دامن قناعتوں کا ہوا تار آجکل
No comments:
Post a Comment