المتکبر
خدا کی ذات کو ہے کبرائی
کہ حاجت سے منزہ ہے الہی
کرے بندہ تکبر تو گنہ ہے
فقط ذات الٰہی کبریا ہے
بھلا اک قطرہ جس کی ابتدا ہو
مغاک کی تیرہ جس کی انتہا ہو
ضرورت در بدر جس کو پھرائے
جسے ٹٹی میں حاجت جا بٹھائے
نہیں زیبا تکبر اس کو کرنا
نہیں شاداں خدا سے اس کو لڑنا
کوئی نمرود مستکبر ہو کیسا
نہیں مومن کسی کے آگے جھکتا
کہا آذر نے ابراہیم سے آؤ
بتوں کے آگے سر اپنا جھکاؤ
پرستش چاند سورج کی کرو تم
ستاروں کے پجاری بن رہو تم
کہا حضرت نے سورج چاند تارے
مسخر ہیں قضا کے ساتھ سارے
کبھی روشن کبھی ماند پڑھتے
کبھی چھڑتے ہیں پھر اترتے
کبھی غائب رہے دمدار تارا
کبھی ہوتا ہے ظاہر وہ ستارا
کبھی بڑھتا کبھی ہے چاند گھٹتا
کبھی خورشید کو ہے گہن لگتا
بھلا دیکھا زحل مریخ زہرہ
عطارد مشتری کا تم نے دورہ
کبھی سیدھے کبھی الٹے ہیں چلتے
کبھی آوارہ پھرتے پھرتے تھمتے
وفوق و استقامت اور حرکت
تحیر فہقیری رجعت اقامت
دلائل ہیں قوی کہ حق تعالیٰ
بڑی ہے قدرت و جبروت والا
اسی کے ہاتھ میں انکے ڈورے
جدھر چاہے ادھر ہی باگ موڑے
اسی کی شان سے بس کبرائی
کسی کی اس کے آگے کیا بڑائی
وطن میرا جو چاہو چھڑا دو
پکڑ کر آگ میں مجھ کو گرا دو
سوا اس کے کسی کو میں نہ مانوں
سوا اس کے کسی کو کچھ نہ جانوں
چنانچہ آگ میں اس کو گرایا
نہ پر اس نے سرِ مُو بھی جلایا
جزاک اللہ فی الدارین خیرا
مٹایا شرک کا سارا بکھیڑا
خلیل اللہ کی تعلیم سیکھو
خدا کی ذات کی تعظیم سیکھو
محمد امین
No comments:
Post a Comment