شکاری ہیں بڑے شاطر بہانہ لے کے چلتے ہیں
وہ ترچھی نظروں میں سیدھا نشانہ لے کے چلتے ہیں
ہماری میزبانی سے نہ گھبرایا کرو لوگو
ہم اپنے ساتھ اپنا آب و دانہ لے کے چلتے ہیں
ذرا پہچان کر بتلاؤ تو یہ کون ہیں کیا ہیں
کہ بادل جن کے سر پر شامیانہ لے کے چلتے ہیں
کہ ہم اہل ادب ہم کیا کریں گے ہمسری ان کی
جو اپنے ساتھ سرکاری خزانہ لے کے چلتے ہیں
سبھی کو علم ہے گو پھول ان کو کچھ نہیں کہتے
یہ بھنورے ہیں مزاج عاشقانہ لے کے چلتے ہیں
ٹھکانوں کی نہ سوچو آپ اظہرؔ گھر سے تو نکلو
پرندے ساتھ میں کب آشیانہ لے کے چلتے ہیں
No comments:
Post a Comment