یاد ماضی کے کئی خواب سہانے آئے
مجھ سے ملنے جو مرے یار پرانے آئے
جس کے حصے میں محبت کے خزانے آئے
دن سمجھ لیجیے اُس کے ہی سہانے آئے
ایک مدت سے تڑپتی ہے یہ خواہش دل میں
خشک ہونٹوں پہ کوئی پھول کھلا نے آئے
دولتِ صبر سے لبریز ہے سینہ اپنا
کیوں ہمیں خواب وہ جنت کے دکھانے آئے
عمر بھر جن کو رہی ہم سے عداوت بے جا
آج تربت پہ وہی پھول چڑھانے آئے
جھوٹے موسم کے سبھی آج اشارے نکلے
دن وہی لوٹ کے پھر دیکھ پرانے آئے
رُخ سمندر کا میاں دیکھ کے حیران ہیں ہم
کون طوفان میں کشتی کو بچانے آئے
شہر جلتا ہے تو جل جائے بلا سے ساجد
کس کو فرصت ہے یہاں آگ بجھانے آئے
سلطان ساجد
No comments:
Post a Comment