پھر ایک دوسری ہجرت نہیں زمین نہیں
یہ میری مملکت درد مجھ سے چھین نہیں
نواح یاد کی دل نے مسافرت چھوڑی
کہ ایک شخص بھی اس کنج کا مکین نہیں
غبار بستہ ستاروں سے بھر چکا آنکھیں
وہ قافلہ، کہ کسی صبح کا امین نہیں
میں تیرے ہدیۂ فرقت پہ کیسے نازاں ہوں
مری جبیں پہ ترا زخم تک حسین نہیں
No comments:
Post a Comment