آغاز سے انجام سفر دیکھ رہا ہوں
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں
تیراک لگاتار یہاں ڈوب رہے ہیں
چپ چاپ میں دریا کا ہنر دیکھ رہا ہوں
اس خواب کی تعبیر کوئی مجھ کو بتا دے
منزل سے بھی آگے کا سفر دیکھ رہا ہوں
اس شخص کے ہونٹوں پہ مرا ذکر بہت ہے
میں اپنی دعاؤں کا اثر دیکھ رہا ہوں
جو تجھ کو بہت دور کبھی لے گئی مجھ سے
میں کب سے وہی راہ گزر دیکھ رہا ہوں
اک عمر سے قائم ہے یہ راتوں کی حکومت
اک عمر سے میں خواب سحر دیکھ رہا ہوں
No comments:
Post a Comment