ہر سَمت نِگاہوں کو دِکھائی دیئے جاتے
کانوں کو فقط آپ سُنائی دیئے جاتے
جانا کوئی اتنا بھی ضروری تو نہیں تھا
گر تھا بھی تو تھوڑی سی رَسائی دیئے جاتے
اے کاش کہ اس بار خطا ہوتی ہماری
اور آپ صفائی پہ صفائی دیئے جاتے
کافی ہے یہی ہم کو میسر ہے خداوند
دُشوار تھا کتنا جو خُدائی دیئے جاتے
ہم ایسے مِرے مولا سبھی زِیست کے قیدی
بے جُرم مُقید ہیں رِہائی دیئے جاتے
اُلفت میں ہَوس جن کی ہے، منزل تو بہت دور
رَستے بھی نہیں ان کو سُجھائی دیئے جاتے
حاصل ہے جنہیں ثروتِ دنیا پہ اِجارہ
قابل تھے اگرچہ کہ گدائی دیئے جاتے
No comments:
Post a Comment