نظم جذباتِ آفتاب
آہ میں اے دل مظلوم اثر پیدا کر
جس میں سودائے محبت ہو وہ سر پیدا کر
غم کا طوفاں بھی اگر آئے تو کچھ فکر نہ کر
قوم کا درد ہر اک دل میں مگر پیدا کر
سرفروشوں کی طرح پہلے مٹا دے خود کو
ہند کی خاک سے پھر لعل و گہر پیدا کر
آگ بے فیض کی دولت کو لگا دے یا رب
کام آئے جو غریبوں کے وہ زر پیدا کر
آسماں کانپتا ہے نام سے جن کے اب تک
آج پھر قوم میں وہ لخت جگر پیدا کر
عہد رفتہ میں جنم تو نے دیا تھا جن کو
مادر ہند وہی نور نظر پیدا کر
چین راحت سے اگر عمر بسر کرنی ہے
دل میں اغیار کے بھی انس سے گھر پیدا کر
گر تمنا ہے کہ ہو سارا زمانہ اپنا
جذبۂ عشق و محبت کی نظر پیدا کر
آفتابؔ اب تری تقدیر کا چمکے گا ضرور
مرد بن کر کوئی دنیا میں ہنر پیدا کر
No comments:
Post a Comment