موتی وفا کے آنکھ کی ڈبیا میں ڈال دوں
دل کے صدف میں آپ کی صورت سنبھال دوں
کہتے ہیں جس کو حسن مجسم وہ حور ہوں
بس اک جھلک سے خون جگر کو ابال دوں
تیر نظر سے سینکڑوں گھائل ہوں کر چکی
اک وار سے میں آپ کے کس بل نکال دوں
دست سوال آج کیے ہیں دراز سب
چندا کی چاندنی ہو کہ سورج کاتھال دوں
یہ فکر و فن ہی دولت عالی ہے صاحبو
ہر صاحب وفا کو یہ مال و منال دوں
شائستہ کنول عالی