Urdu Deccan

Tuesday, July 27, 2021

حمیدہ شاہین

 یوم پیدائش 26 جولائی 1963


جس طرف سے بھی ملاوٹ کی رسد ہے ، رد ہے 

ایک رتّی بھی اگر خواہش ِبد ہے ، رد ہے


دکھ دیے ہیں زرِ خالص کی پرکھ نے لیکن 

جس تعلق میں کہیں کینہ و کد ہے ، رد ہے


امن لکھنا نہیں سیکھے جنھیں پڑھ کر بچّے

ان کتابوں پہ کسی کی بھی سند ہے، رد ہے


جب چڑھائی پہ مِرا ہاتھ نہ تھاما تو نے 

اب یہ چوٹی پہ جو بے فیض مدد ہے ، رد ہے


مجھ پہ سجتا ہی نہیں حیلہء نسیان و خطا

ان بہانوں میں جو توہینِ عمد ہے، رد ہے


تیرے ہوتے ہوئے کیسے کروں تاویلِ عدم

تجھ سے ہٹ کر جو ازل اور ابد ہے ، رد ہے


ہم بھی تہذیبِ تکلّم کے ہیں داعی لیکن 

یہ جو ہر صیغہِ اظہار پہ زد ہے۔ رد ہے


اس لگاوٹ بھرے لہجے کی جگہ ہے دل میں 

تہنیت میں جو ریا اور حسد ہے، رد ہے


اپنی سرحد کی حفاظت پہ ہے ایمان مگر

زندگی اور محبت پہ جو حد ہے ، رد ہے


اس سے کہنا کہ یہ تردید کوئی کھیل نہیں 

جو مِری بات کو دہرائے کہ رد ہے ، رد ہے


حمیدہ شاہین


احمد عاری

 پیدائش 26 جولائی


کیا بتاؤں خیال کا مطلب

یہ نہیں ہے سوال کا مطلب


ملنا بھی اور دور بھی رہنا

تو پھر ایسے وصال کا مطلب


اس لیے میسجوں پہ رہتا ہوں

لوگ پوچھے گے کال کا مطلب


کیا کہا آپ سے محبت ہے

آپ کی اس مجال کا مطلب


ہے ترقی حرام کے اندر

کچھ نہیں ہے حلال کا مطلب


احمد عاری


ڈاکٹر عنبر عابد

 ہم پہ جنّت سے نکلوانے کا الزام سہی 

گھر کو گہوارۂ جنّت بھی بنایا ہم نے 

ڈاکٹر عنبر عابد


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 بیاد سالروز تولد و مرگ ابن صفی مرحوم


آج بھی زندہ ہیں اپنے کام سے ابن صفی

ان کا فن ہے ترجمان سوز و ساز زندگی


ہو گیا چھبیس جولائی کو وہ سورج غروب

ضوفگن ہے آج بھی ویسے ہی جس کی روشنی


کوئی مانے یا نہ مانے میں ہوں اس کا معترف

" قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری "


یوں تو کوشش کی کئی لوگوں نے لیکن آج تک

ہو سکا پیدا نہ کوئی دوسرا ابن صفی


صرف باون سال پر تھی زندگی ان کی محیط

ان کی تحریریں ہیں شمع فکروفن کی روشنی


ان کا جاسوسی ادب میں ہے نمایاں اک مقام

پھر بھی اپنے عہد میں تھے وہ شکار بے رخی


ان کے کرداروں سے ظاہر ہے وہ تھے بیدار مغز

ہے نمایاں ان کے فن پاروں سے عصری آگہی


ناولوں ہی تک نہ تھیں محدود ان کی کاوشیں

مرجع اہل نظر ہے ان کا ذوق شاعری


ایک ہی دن ان کا ہے یوم تولد اور وفات

چھین لی چھبیس جولائی نے ہونٹوں سے ہنسی


نام تھا اسرار احمد محرم اسرار تھے

ہوتی ہے محسوس برقی آج بھی ان کی کمی


لے گیا اردو کو گھر گھر ناولوں سے اپنے جو

اور کوئی بھی نہ تھا برقی بجز ابن صفی


احمد علی برقی اعظمی


ابن صفی

 یوم پیدائش 26 جولائی 1928


راہ طلب میں کون کسی کا اپنے بھی بیگانے ہیں

چاند سے مکھڑے رشک غزالاں سب جانے پہچانے ہیں 


تنہائی سی تنہائی ہے کیسے کہیں کیسے سمجھائیں

چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں 


اف یہ تلاش حسن و حقیقت کس جا ٹھہریں جائیں کہاں 

صحن چمن میں پھول کھلے ہیں صحرا میں دیوانے ہیں 


ہم کو سہارے کیا راس آئیں اپنا سہارا ہیں ہم آپ

خود ہی صحرا خود ہی دوانے شمع نفس پروانے ہیں 


بالآخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا

اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں


ابن صفی


پرتپال سنگھ بیتاب

 یوم پیدائش 26 جولائی 1949


یہ زندگی سفر ہے ٹھہر ہی نہ جائیے

یہ بھی کہ بے خیال گزر ہی نہ جائیے


صحرائے ہول خیز میں رہئے لیے دیئے

ریگ رواں کے ساتھ بکھر ہی نہ جائیے


جب ڈوبنا ہی طے ہے ابھرنا محال ہے

دلدل ہے دل فریب اتر ہی نہ جائیے


ان راستوں میں رات بھٹکتی ہے بے سبب

ایسا بھی خوف کیا ہے جو گھر ہی نہ جائیے


اب کے سفر میں ہے یہ نیا ضابطہ جناب

جانا جدھر ہے آپ ادھر ہی نہ جائیے 


بیتاب موت کی یہ للک زندگی بھی ہے

یوں انتظار موت میں مر ہی نہ جائیے


پرتپال سنگھ بیتاب


آصف کمال

 یوم پیدائش 25 جولائی 1963


ایک وہ ہے کہاں سمجھتا ہے

غم ہمارا جہاں سمجھتا ہے


ہر نصیحت گراں سمجھتا ہے

دل تو دل کی زباں سمجھتا ہے


ایک طبقہ چراغ سحری سا

بس وہ اردو زباں سمجھتا ہے


لیڈروں کے حسین وعدوں کو

دیش کا نوجواں سمجھتا ہے


تشنگی کے غذاب کو آصف 

کوئی سوکھا کنواں سمجھتا ہے 


آصف کمال


فوزیہ رباب

 یوم پیدائش 25 جولائی 1988


ترا خیال کبھی چھو کے جب گزرتا ہے

بدن کے رنگ سے آنچل مرا مہکتا ہے


نئے زمانے نئے موسموں سے گونجتے ہیں

کوئی پرندہ مری چھت پہ بھی چہکتا ہے


وہ غفلتوں کا پرستار ہو گیا ہے اگر

 دعا کروں گی ، مرا دکھ خدا تو سنتا ہے


تمھارے ہجر میں کرتا ہے کون دل جوئی

 وہ کون ہے جو غموں کی رتیں بدلتا ہے


حسین ہو تو ادائیں بھی تم سے پھوٹیں گی

بڑے غرور میں ہو پر تمہارا بنتا ہے


تمہارے نین طلسمات سے بھرے ہوئے ہیں

انہی کی دید سے ہر غم ہمارا ٹلتا ہے


ہم ایسے لوگ نہیں ہر کسی پہ مر جائیں

ذرا بتا نا ! ہمیں کیا کوئی سمجھتا ہے


یہ تیرا غم ہے اسے خود سنبھال لے آ کر

بھٹکنے والا نہیں ہے مگر بھٹکتا ہے


رباب کافی نہیں کیا مری خوشی کے لیے

میں سوچتی ہوں وہ مجھ کو دکھائی دیتا ہے


فوزیہ رباب


خورشید عالم بسمل

 یوم پیدائش 25 جولائی 1957


دینِ اسلام میں یہ شانِ مساوی دیکھی

یہ غلاموں کو بھی سردار بنا دیتا ہے


جانگزیں قلب میں ایمان اگر ہو جاۓ

عام انسان کو جیدار بنا دیتا ہے


قتل کرنے کے ارادے سے جو آیا اسکو

عاشقِ سیّدِ ابرار ﷺ بنا دیتا ہے


دیکھ لے جو کوئی خورشید نبی کا چہرہ

اس کو آقا کا پرستار بنا دیتا ہے


خورشید عالم خورشید


عابده ارونی

 یوم پیدائش 25 جولائی 


ہم تیری محبت کا جو اقرار کریں گے

تا عمر کبھی اس سے نہ انکار کریں گے


یادوں کے نئے دیپ جلائے تری خاطر 

جب آۓ گا تُو راہوں کو گلزار کریں گے


بدلا نہ اصولوں کو نہ حالات کو بدلا

وہ آۓ تو جینا یہاں دشوار کریں گے


چہروں کو بھی دیکھو، کہ یہاں سب ہیں منافق

دھوکا کبھی دیں گے تو کبھی وار کریں گے


مخلص بھی بہت کم ہیں، زمانے میں اے صاحب! 

اور بات نبھانے کی تو دوچار کریں گے


الفت نہیں، الفت کے فقط دعوے بچے ہیں

جو کرتے ہیں الفت، وہ یہ اظہار کریں گے


وحشت سی مجھے ہوتی ہے دنیا سے ارونی! 

سب کھیل ہوس کا ہے، کہاں پیار کریں گے؟


 عابده ارونی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...