یوم پیدائش 26 جولائی 1963
جس طرف سے بھی ملاوٹ کی رسد ہے ، رد ہے
ایک رتّی بھی اگر خواہش ِبد ہے ، رد ہے
دکھ دیے ہیں زرِ خالص کی پرکھ نے لیکن
جس تعلق میں کہیں کینہ و کد ہے ، رد ہے
امن لکھنا نہیں سیکھے جنھیں پڑھ کر بچّے
ان کتابوں پہ کسی کی بھی سند ہے، رد ہے
جب چڑھائی پہ مِرا ہاتھ نہ تھاما تو نے
اب یہ چوٹی پہ جو بے فیض مدد ہے ، رد ہے
مجھ پہ سجتا ہی نہیں حیلہء نسیان و خطا
ان بہانوں میں جو توہینِ عمد ہے، رد ہے
تیرے ہوتے ہوئے کیسے کروں تاویلِ عدم
تجھ سے ہٹ کر جو ازل اور ابد ہے ، رد ہے
ہم بھی تہذیبِ تکلّم کے ہیں داعی لیکن
یہ جو ہر صیغہِ اظہار پہ زد ہے۔ رد ہے
اس لگاوٹ بھرے لہجے کی جگہ ہے دل میں
تہنیت میں جو ریا اور حسد ہے، رد ہے
اپنی سرحد کی حفاظت پہ ہے ایمان مگر
زندگی اور محبت پہ جو حد ہے ، رد ہے
اس سے کہنا کہ یہ تردید کوئی کھیل نہیں
جو مِری بات کو دہرائے کہ رد ہے ، رد ہے
حمیدہ شاہین
No comments:
Post a Comment