Urdu Deccan

Thursday, January 14, 2021

امیر ‏قزلباش

یوم پیدائش 15 جنوری 1943

مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا

گرا دیا ہے تو ساحل پہ انتظار نہ کر
اگر وہ ڈوب گیا ہے تو دور نکلے گا

اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا

یقیں نہ آئے تو اک بات پوچھ کر دیکھو
جو ہنس رہا ہے وہ زخموں سے چور نکلے گا

اس آستین سے اشکوں کو پوچھنے والے
اس آستین سے خنجر ضرور نکلے گا

امیر قزلباش

ابرار کرتپوری

یوم پیدائش 14 جنوری 1939

ارتقا کا ،روشنی کا ،خواب کا، تعبیر کا
دینِ احمدؐ راستہ ہے سر بسر تعمیر کا 

روشنی کی منزلیں پنہاں علومِ  نو میں ہیں
ہے حصول ِعلم و دانش راستہ تنویر کا

آئیے اب چاند تاروں پر کمندیں ڈال دیں
آیۂ قرآں میں ہم کو حکم ہے تسخیر کا

عظمت ِانساں بھی معراج کی بے مثل ِشب 
اور کمالِ ارتقا سائنس کی تدبیر کا

سب کتابوں سے بشارت جن کے آنے کی ملی
نامِ احمدؐ ہے ہمارے صاحب ِتطہیر کا 

آپؐ کے کردار کا سکہّ جما ہے ہر طرف
دو جہاں میں غلغلہ ہے خلق کی تاثیر کا

بھیجتا ہے خالقِ اکبر محمدؐ پر درود
ہے علَم اونچا مرے سرکار کی توقیر کا

ابرار کرتپوری

جگت موہن لال رواں


 وم پیدائش 14 جنوری 1889


نکل جائے یوں ہی فرقت میں دم کیا

نہ ہوگا آپ کا مجھ پر کرم کیا


ہنسے بھی روئے بھی لیکن نہ سمجھے

خوشی کیا چیز ہے دنیا میں غم کیا


مبارک ظالموں کو ظلم ہم پر

جو اپنا ہی کیا ہے اس کا غم کیا


مٹا جب امتیاز کفر و ایماں

مکان کعبہ کیا بیت الصنم کیا


نہیں جب قوت احساس دل میں

غم دنیا سرور جام جم کیا


گزر ہی جائیں گے غربت کے دن بھی

کریں دو دن کو اب اخلاق کم کیا


مری بگڑی ہوئی تقدیر بھی ہے

تمہارے طرۂ گیسو کا خم کیا


مری تقدیر میں لکھا ہے تو نے

بتا اے مالک لوح و قلم کیا


بھلا دے گی ہمیں دو دن میں دنیا

ہماری شاعری کیا اور ہم کیا


ہر اک مشکل کو حل کرتی ہے جب موت

کروں آگے کسی کے سر کو خم کیا


رواںؔ کے درد کا عالم نہ پوچھو

کوئی یوں ہوگا مست جام جم کیا


جگت موہن لال رواں

Wednesday, January 13, 2021

حفیظ جالندھری


 یوم پیدائش 14جنوری 1900


دل کو ویرانہ کہو گے ، مجھے معلوم نہ تھا

پھر بھی دل ہی میں رہو گے ، مجھے معلوم نہ تھا


ساتھ دنیا کا میں چھوڑوں گا تمہاری خاطر

اور تم ساتھ نہ ہو گے ،مجھے معلوم نہ تھا


چپ جو ہوں کوئی بری بات ہے میرے دل میں

تم بھی یہ بات کہو گے ، مجھے معلوم نہ تھا


لوگ روتے ہیں میری بد نظری کا رونا

تم بھی اس رو میں بہو گے ، مجھے معلوم نہ تھا


تم تو بے صبر تھے آغاز محبت میں حفیظ

اس قدر جبر سہو گے ، مجھے معلوم نہ تھا 


حفیظ جالندھری

تصدق حسین خالد


 یوم پیدائش 12 جنوری 1901


چاند آج کی رات نہیں نکلا 

وہ اپنے لحافوں کے اندر چہرے کو چھپائے بیٹھا ہے 

وہ آج کی رات نہ نکلے گا 

یہ رات بلا کی کالی رات 

تارے اسے جا کے بلائیں گے 

صحرا اسے آوازیں دے گا 

بحر اور پہاڑ پکاریں گے 

لیکن اس نیند کے ماتے پر کچھ ایسا نیند کا جادو ہے 

وہ آج کی رات نہ نکلے گا 

یہ رات بلا کی کالی رات 

مغرب کی ہوائیں چیخیں گی بحر اپنا راگ الاپے گا 

سائیں سائیں 

تاریکی میں چپکے چپکے سنسان بھیانک ریتے پر 

بڑھتا بڑھتا ہی جائے گا 

موجوں کی مسلسل یورش میں 

وہ گیت برابر گاتے ہوئے 

جو کوئی نہیں اب تک سمجھا 

سبزے میں ہوئی کچھ جنبش سی 

وہ کانپا 

آہیں بھرنے لگا 

چاند آج کی رات نہیں نکلا 

بھیڑیں سر نیچے ڈالے ہوئے 

چپ چاپ آنکھوں کو بند کئے 

میداں کی اداس خموشی میں فطرت کی کھلی چھت کے نیچے 

کیوں سہمی سہمی پھرتی ہیں 

اور باہم سمٹی جاتی ہیں 

چاند آج کی رات نہیں نکلا 

چاند آج کی رات نہ نکلے گا


تصدق حسین خالد


#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #شعراء #birthday  #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urdu #poetrylover #poetry #rekhta #شاعر #غزل #gazal

رام راض


 یوم پیدائش 13 جنوری 1933


مجھے کیف ہجر عزیز ہے تو زر وصال سمیٹ لے

میں جو تیرا کوئی گلہ کروں مری کیا مجال سمیٹ لے 


مرے حرف و صوت بھی چھین لے مرے صبر و ضبط کے ساتھ تو

مرا کوئی مال برا نہیں میرا سارا مال سمیٹ لے 


یہ تمام دن کی مسافتیں یہ تمام رات کی آفتیں

مجھے ان دنوں سے نجات دے مرا یہ وبال سمیٹ لے 


سبھی ریزہ ریزہ عنایتیں اسی ایک کی ہیں روایتیں

وہ جو لمحہ لمحہ بکھیر دے وہ جو سال سال سمیٹ لے 


ترے انتظار میں اس طرح مرا عہد شوق گزر گیا

سر شام جیسے بساط دل کوئی خستہ حال سمیٹ لے 


ترے رخ پہ چاند بھی درد ہے ترا اس میں کون سا حرج ہے

تو اگر یہ حاشیہ چھوڑ دے تو اگر یہ بال سمیٹ لے 


یہ ہمارا شوق تھا ہم نے اپنے گلوں میں پرندے سجا لیے

اسے اختیار ہے رامؔ جب بھی وہ چاہے جال سمیٹ لے


رام ریاض


#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #شعراء #birthday #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urdu #poetrylover #poetry #rekhta #شاعر #غزل #gazal #ریاض #ramriyaz

احمد اشفاق


 یوم پیدائش 13 جنوری 1969


جتنی ہم چاہتے تھے اتنی محبت نہیں دی 

خواب تو دے دیے اس نے ہمیں مہلت نہیں دی 


بکتا رہتا سر بازار کئی قسطوں میں 

شکر ہے میرے خدا نے مجھے شہرت نہیں دی 


اس کی خاموشی مری راہ میں آ بیٹھی ہے 

میں چلا جاتا مگر اس نے اجازت نہیں دی 


ہم ترے ساتھ ترے جیسا رویہ رکھتے 

دینے والے نے مگر ایسی طبیعت نہیں دی 


مجھ سے جو تنگ ہوا میں نے اسے چھوڑ دیا 

اس کو خود چھوڑ کے جانے کی بھی زحمت نہیں دی 


ہم تھے محتاط تعلق میں توازن رکھا 

پاس الفت رہا حد درجہ عقیدت نہیں دی 


جس قدر ٹوٹ کے چاہا اسے ہم نے اشفاقؔ 

اس سخی نے ہمیں اتنی بھی تو نفرت نہیں دی


احمد اشفاق

Tuesday, January 12, 2021

لال چند فلک

 یوم پیدائش 13 جنوری 1887

گیت


خوف آفت سے کہاں دل میں ریا آئے گی

بات سچی ہے جو وہ لب پہ سدا آئے گی 


دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت

میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی 


میں اٹھا لوں گا بڑے شوق سے اس کو سر پر

خدمت قوم و وطن میں جو بلا آئے گی 


سامنا صبر و شجاعت سے کروں گا میں بھی

کھنچ کے مجھ تک جو کبھی تیغ جفا آئے گی 


غیر زعم اور خودی سے جو کرے گا حملہ

میری امداد کو خود ذات خدا آئے گی 


آتما ہوں میں بدل ڈالوں گا فوراً چولا

کیا بگاڑے گی اگر میری قضا آئے گی 


خون روئے گی سما پر میرے مرنے پہ شفق

غم منانے کے لیے کالی گھٹا آئے گی 


ابر تر اشک بہائے گا مرے لاشے پر

خاک اڑانے کے لیے باد صبا آئے گی 


زندگانی میں تو ملنے سے جھجکتی ہے فلکؔ

خلق کو یاد مری بعد فنا آئے گی 


لال چند فلک


#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #شعراء #birthday #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urdu #poetrylover #p


oetry #rekhta #شاعر #غزل #gazal

جاوید عثمان زِندانی

یوم پیدائش کی مبارک باد

12جنوری 1965


گردشِ وقت نے دکھلائے وہ منظر ہم کو

دیدہء تر تو کسی بات پہ حیراں بھی نہیں


 جاوید عثمان زِندانی


#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #شعراء #birthday #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urdu #poetrylover #poetry #rekhta #شاعر #غزل


#gazal

Monday, January 11, 2021

احمد فراز


 یوم پیدائش 12 جنوری 1931


سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی

سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف

سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے

ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں

سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں

سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی

سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے

سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں

سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی

جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں

مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں

پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں 


وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں

کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں 


بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا

سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت

مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں 


رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں 


کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے

کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں 


کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی

اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں 


اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں

فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں 


احمد فراز

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...