یوم پیدائش 18 جنوری 2000
جب مرا وہم و گماں سوئے سحر جاتا ہے
تب سیہ رات کا ڈر دل سے اتر جاتا ہے
وحشت و درد کے رستوں پہ تھکن اتنی ہے
جو میں چلتا ہوں تو پھر سایہ ٹھہر جاتا ہے
زندہ رہ سکتا نہیں کوٸ بھی تعبیر تلک
میری آنکھوں میں تو ہر خواب ہی مر جاتا ہے
ایسے ڈرتا ہوں ترے ہجر کی پرچھائیں سے
جیسے اک بچہ برے خواب سے ڈر جاتا ہے
جیسے آتش سے کیا جاتا ہے سونا کندن
ایسے دل درد کی لذت سے نکھر جاتا ہے
ایسی شمشیرِ اَنا ہم کو ملی ورثے میں
جب وہ چلتی ہے تو بس اپنا ہی سر جاتا ہے
بغض و نفرین کی آلودہ فضاٶں میں نعیم
سانس لینے سے مرا جسم مکر جاتا ہے
نعیم احمد نیم
No comments:
Post a Comment