Urdu Deccan

Saturday, January 16, 2021

حبیب احمد صدیقی

 یوم پیدائش 15 جنوری 1908


خزاں نصیب کی حسرت بروئے کار نہ ہو

بہار شعبدۂ چشم انتظار نہ ہو 


فریب خوردۂ الفت سے پوچھئے کیا ہے

وہ ایک عہد محبت کہ استوار نہ ہو 


نظر کو تاب نظارہ نہ دل کو جرأت دید

جمال یار سے یوں کوئی شرمسار نہ ہو 


قبا دریدہ و دامان و آستیں خونیں

گلوں کے بھیس میں یہ کوئی دل فگار نہ ہو 


نہ ہو سکے گا وہ رمز آشنائے کیف حیات

جو قلب چشم تغافل کا رازدار نہ ہو 


طریق عشق پہ ہنستی تو ہے خرد لیکن

یہ گمرہی کہیں منزل سے ہمکنار نہ ہو 


نہ طعنہ زن ہو کوئی اہل ہوش مستوں پر

کہ زعم ہوش بھی اک عالم خمار نہ ہو 


وہ کیا بتائے کہ کیا شے امید ہوتی ہے

جسے نصیب کبھی شام انتظار نہ ہو 


یہ چشم لطف مبارک مگر دل ناداں

پیام عشوۂ رنگیں صلائے دار نہ ہو 


کسی کے لب پہ جو آئے نوید زیست بنے

وہی حدیث وفا جس پہ اعتبار نہ ہو 


جو دو جہان بھی مانگے تو میں نے کیا مانگا

وہ کیا طلب جو بقدر عطائے یار نہ ہو


حبیب احمد صدیقی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...