یوم پیدائش 26 جنوری 1981
زندگی روز بناتی ہے بہانے کیا کیا
جانے رہتے ہیں ابھی کھیل دکھانے کیا کیا
صرف آنکھوں کی نمی ہی تو نہیں مظہر غم
کچھ تبسم بھی جتا دیتے ہیں جانے کیا کیا
کھٹکیں اس آنکھ میں تو دھڑکیں کبھی اس دل میں
در بدر ہو کے بھی اپنے ہیں ٹھکانے کیا کیا
بول پڑتا تو مری بات مری ہی رہتی
خامشی نے ہیں دئے سب کو فسانے کیا کیا
شہر میں رنگ جما گاؤں میں فصلیں اجڑیں
حشر اٹھایا بنا موسم کی گھٹا نے کیا کیا
خواب و امید کا حق، آہ کا فریاد کا حق
تجھ پہ وار آئے ہیں یہ تیرے دوانے کیا کیا
اجمل صدیقی
No comments:
Post a Comment