یوم پیدائش 18 جنوری 1914
اردو کی نسبندی
فیملی منصوبہ بندی کا کرشمہ دیکھ کر
بڑھتی آبادی گھٹانے کا یہ نسخہ دیکھ کر
قوم کو اردو کی نسبندی کا بھی آیا خیال
تاکہ رخصت ہو دلوں سے جلد یہ کافرِ جمال
مختلف ناموں سے نسبندی بَھون کھولے گئے
کچھ تو پہلے سے ہی تھے کچھ دفعتاً کھولے گئے
سربراہوں میں کچھ اپنے بھی تھے کچھ اغیار بھی
مصلحت پیشہ بھی کچھ تھے ان میں کچھ خونخوار بھی
فکر زنگ آلود سے نشترزنی ہونے لگی
زخم اپنا، اپنے ہی خوں سے زباں دھونے لگی
بعد آزادی تو یوں بھی تھی لبوں پر اس کے جاں
اک محقق نے کہا اردو ہے ترکوں کی زباں
یہ تو گھس پیٹھی ہے بھارت ورش میں کیا اس کا کام
جلد دستورِ اساسی سے ہٹاؤ اس کا نام
غیر تو غیر ہیں اپنوں کا بھی سنئے ماجرا
جن کے پنجوں میں بیچاری کا دبا ہے نرخرا
آئے نسبندی بِھون کی سربراہی کے لیے
کھل گیا اک اور رستہ تاناشاہی کے لیے
جب سے اپنے شہر میں قائم ہوا یہ ورکشاپ
پیر تسمہ پاکی صورت ہیں مسلط اس پہ آپ
کیمپ میں رکھی گئی کچھ ایسے نسبندوں کی ٹیم
چند دن میں عطائی چند کے جعلی حکیم
یوں غلط بخشی و حق تلفی کا گھن چکر چلا
سب کو یاد آیا پرانا قصہ بندر بانٹ کا
مستند فنکار ہوں یا نو نہالانِ ادب
ایک ہی لاٹھی سے ہانکے کے جا رہے ہیں سب کے سب
جی حضوری اور خوشامد کی تو سودا پٹ گیا
ورنہ نسبندی بَھون سے رشتہ ناتا کٹ گیا
جیسے نادر شاہ نے لوٹی تھی دلی کی بہار
فن ہو یا فنکار ناقدری کے ہیں یوں ہی شکار
گر کسی نے کردیا کچھ ان کی مرضی کے خلاف
غیر ممکن ہے کبھی کردیں بڑے صاحب معاف
جو بجٹ رکھا گیا تھا خوں چڑھانے کے لئے
یعنی اردو کو بچانے اور جِلانے کے لیے
بینک بیلنس اس رقم سے دن بدن بڑھتا گیا
شیر نے کھاکر جو چھوڑا گیدڑوں میں بٹ گیا
گڑ کھلانے سے اگر بیمار کا قصہ پاک ہو
اس کو ناحق زہر دیکر کیوں کیا جائے ہلاک
سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی دو ٹکڑے نہو
اس کو کہتے ہیں تدبر اے ادیبو! شاعرو
اس زبردستی کی نسبندی سے واہی عن قریب
جاں بحق تسلیم ہونے ہی کو ہے اردو غریب
رضا نقوی واہی
بھگوان مرے دل کو وہ زندہ تمنا دے
جو حرص کو بھڑکا دے اور جیب کو گرما دے
وادی ِسیاست کے اس ذرے کو چمکا دے
اس خادم ِادنی کو اک کرسی اعلی دے
اوروں کا جو حصہ ہے مجھ کو وہی داتا دے
محرومِ بتاشہ ہوں تو پوری و حلو دے
ہاں مرغ مسلم دے ہاں گرم پراٹھا دے
سوکھی ہوئی آنتوں کو فوراً ہی جو چکنا دے
تحریر میں چشتی دے تقریر میں گرمی دے
جنتا کو جو پھسلالے اور قوم کو بہکا دے
سکھلادے مجھے داتا وہ راز جہاں بانی
قطرے سے جو دریا لے دریا کو جو قطرہ دے
مفلس کی لنگوٹی تک باتوں میں اتروالوں
احسان کے پردے میں چوری کا سلیقہ دے
قاتل کی طعبیت کو بسمل کی ادا سکھلا
خونریزی کے جذبے کو ہمدردی کا پروا دے
تھوڑی سی جو غیرت ہے وہ بھی نہ رہے باقی
احساس حمیت کو اس دل سے نکلوا دے
القصہ مرے مالک تجھ سے یہ گزارش ہے
مرغی وہ عنایت ہو سونے کا جو انڈا دے
رضا نقوی واہی
No comments:
Post a Comment