یوم پیدائش 17 جنوری 1906
برحق وہ بہت دور ہے نظارے کا ڈر ہے
کونین جسے کہتے ہیں آغوش ِنظر ہے
ہونٹوں پہ تبسم ہے گریباں پہ نظر ہے
آغوش میں تم ہو کہ گلستاں کی سحر ہے
کہتے ہیں کہ فریاد ہے تکذیبِ محبت
معلوم ہوا کفر تمنائے اثر ہے
تو چاہے تو اب ختم یہ سلسلہ ِشام
ظالم تری انگڑائی گریبانِ سحر ہے
ہم آنکھ اٹھاتے ہیں بہت دور پہنچکر
یہ بیخودی ِشوق نہیں راہ گزر ہے
اے ذوق طلب عشق سی سو حُسن عبارت
بر خیز کہ اب میرے لئے میری نظر ہے
کیوں محوِ جمال آئینہء زعم میں ہیں وہ
کیا میری نظر سے بھی بلند انکی نظر ہے
نومیدیِ نظارہ کے اسباب فنا کر
فریاد کہ فریاد بھی محروم اثر ہے
ہم تیرے بغیر اپنی حقیقت سے پرے تھے
یہ بے خبری اصل میں اپنی ہی خبر ہے
آسودہ کبھی حسن تھا شوق طلبی میں
وہ خواب ہے جس عشق سے تعبیر بشر ہے
کیوں نرگس ِمخمور سے مئے ڈھال رہے ہو
غلطیدہ ابھی گیسوئے شب تابہ کمر ہے
تو طور کا بھڑکا ہوا شعلہ دم ِرفتار
لہراتی ہوئی برق تری راہ گزر ہے
حیدر نہ ملی داد کبھی علم و ہنر کی
ہر اہل وطن میرے لئے تنگ نظر ہے
حیدر دہلوی
No comments:
Post a Comment