Urdu Deccan

Monday, February 1, 2021

ضیا جالندھری

 یوم پیدائش 02 فروری 1923


گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں

نہیں ہوا پہ بھروسہ تو کچھ عجب بھی نہیں 


کھلیں تو کیسے کھلیں پھول اجاڑ صحرا میں

سحاب خواب نہیں گریۂ طلب بھی نہیں 


ہنسی میں چھپ نہ سکی آنسوؤں سے دھل نہ سکی

عجب اداسی ہے جس کا کوئی سبب بھی نہیں 


ٹھہر گیا ہے مرے دل میں اک زمانے سے

وہ وقت جس کی سحر بھی نہیں ہے شب بھی نہیں 


تمام عمر ترے التفات کو ترسا

وہ شخص جو ہدف ناوک غضب بھی نہیں 


گلا کرو تو وہ کہتے ہیں یوں رہو جیسے

تمہارے چہروں پہ آنکھیں نہیں ہیں لب بھی نہیں 


مفاہمت نہ کر ارزاں نہ ہو بھرم نہ گنوا

ہر اک نفس ہو اگر اک صلیب تب بھی نہیں 


برا نہ مان ضیاؔ اس کی صاف گوئی کا

جو درد مند بھی ہے اور بے ادب بھی نہیں


ضیا جالندھری


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...