یوم پیدائش 02 فروری 1923
گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں
نہیں ہوا پہ بھروسہ تو کچھ عجب بھی نہیں
کھلیں تو کیسے کھلیں پھول اجاڑ صحرا میں
سحاب خواب نہیں گریۂ طلب بھی نہیں
ہنسی میں چھپ نہ سکی آنسوؤں سے دھل نہ سکی
عجب اداسی ہے جس کا کوئی سبب بھی نہیں
ٹھہر گیا ہے مرے دل میں اک زمانے سے
وہ وقت جس کی سحر بھی نہیں ہے شب بھی نہیں
تمام عمر ترے التفات کو ترسا
وہ شخص جو ہدف ناوک غضب بھی نہیں
گلا کرو تو وہ کہتے ہیں یوں رہو جیسے
تمہارے چہروں پہ آنکھیں نہیں ہیں لب بھی نہیں
مفاہمت نہ کر ارزاں نہ ہو بھرم نہ گنوا
ہر اک نفس ہو اگر اک صلیب تب بھی نہیں
برا نہ مان ضیاؔ اس کی صاف گوئی کا
جو درد مند بھی ہے اور بے ادب بھی نہیں
ضیا جالندھری
No comments:
Post a Comment