یوم پیدائش 15 فروری 1914
رہ گزر ہو یا مسافر نیند جس کو آئے ہے
گرد کی میلی سی چادر اوڑھ کے سو جائے ہے
قربتیں ہی قربتیں ہیں دوریاں ہی دوریاں
آرزو جادو کے صحرا میں مجھے دوڑائے ہے
وقت کے ہاتھوں ضمیر شہر بھی مارا گیا
رفتہ رفتہ موج خوں سر سے گزرتی جائے ہے
میری آشفتہ سری وجہ شناسائی ہوئی
مجھ سے ملنے روز کوئی حادثہ آ جائے ہے
یوں تو اک حرف تسلی بھی بڑی شے ہے مگر
ایسا لگتا ہے وفا بے آبرو ہو جائے ہے
زندگی کی تلخیاں دیتی ہیں خوابوں کو جنم
تشنگی صحرا میں دریا کا سماں دکھلائے ہے
کس طرح دست ہنر میں بولنے لگتے ہیں رنگ
مدرسے والوں کو تاباںؔ کون سمجھا پائے ہے
غلام ربانی تاباں
No comments:
Post a Comment