یوم پیدائش 15 فروری 1914
نہ سیو ہونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ہم کو
مصلحت کا یہ تقاضا ہے بھلا دو ہم کو
جرم سقراط سے ہٹ کر نہ سزا دو ہم کو
زہر رکھا ہے تو یہ آب بقا دو ہم کو
بستیاں آگ میں بہہ جائیں کہ پتھر برسیں
ہم اگر سوئے ہوئے ہیں تو جگا دو ہم کو
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
خضر مشہور ہو الیاس بنے پھرتے ہو
کب سے ہم گم ہیں ہمارا تو پتا دو ہم کو
زیست ہے اس سحر و شام سے بیزار و زبوں
لالہ و گل کی طرح رنگ قبا دو ہم کو
شورش عشق میں ہے حسن برابر کا شریک
سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ہم کو
جرأت لمس بھی امکان طلب میں ہے مگر
یہ نہ ہو اور گناہ گار بنا دو ہم کو
کیوں نہ اس شب سے نئے دور کا آغاز کریں
بزم خوباں سے کوئی نغمہ سنا دو ہم کو
مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر
بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو
ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
بھیڑ بازار سماعت میں ہے نغموں کی بہت
جس سے تم سامنے ابھرو وہ صدا دو ہم کو
کون دیتا ہے محبت کو پرستش کا مقام
تم یہ انصاف سے سوچو تو دعا دو ہم کو
آج ماحول کو آرائش جاں سے ہے گریز
کوئی دانشؔ کی غزل لا کے سنا دو ہم کو
احسان دانش
No comments:
Post a Comment