Urdu Deccan

Friday, February 19, 2021

احسان دانش

 یوم پیدائش 15 فروری 1914


نہ سیو ہونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ہم کو

مصلحت کا یہ تقاضا ہے بھلا دو ہم کو


جرم سقراط سے ہٹ کر نہ سزا دو ہم کو

زہر رکھا ہے تو یہ آب بقا دو ہم کو


بستیاں آگ میں بہہ جائیں کہ پتھر برسیں

ہم اگر سوئے ہوئے ہیں تو جگا دو ہم کو


ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب

ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو


خضر مشہور ہو الیاس بنے پھرتے ہو

کب سے ہم گم ہیں ہمارا تو پتا دو ہم کو


زیست ہے اس سحر و شام سے بیزار و زبوں

لالہ و گل کی طرح رنگ قبا دو ہم کو


شورش عشق میں ہے حسن برابر کا شریک

سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ہم کو


جرأت لمس بھی امکان طلب میں ہے مگر

یہ نہ ہو اور گناہ گار بنا دو ہم کو


کیوں نہ اس شب سے نئے دور کا آغاز کریں

بزم خوباں سے کوئی نغمہ سنا دو ہم کو


مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر

بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو


ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں

شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو


بھیڑ بازار سماعت میں ہے نغموں کی بہت

جس سے تم سامنے ابھرو وہ صدا دو ہم کو


کون دیتا ہے محبت کو پرستش کا مقام

تم یہ انصاف سے سوچو تو دعا دو ہم کو


آج ماحول کو آرائش جاں سے ہے گریز

کوئی دانشؔ کی غزل لا کے سنا دو ہم کو


احسان دانش


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...