مچاؤں شور زمانے کی یوں نظر میں رہوں
وگرنہ سسکیاں بھرتے ہُوئے میں گھر میں رہوں
کبھی خیال میں تیرے کبھی نظر میں رہوں
کسی بھی شعر کی صورت ترے ہُنر میں رہوں
لبوں پہ اُس کے ہمیشہ رہوں بنامِ غزل
دُعائے خیر بنوں حرفِ معتبر میں رہوں
کبھی تو راہ دکھاؤں ستارہ بن کے تُجھے
کبھی تری ہی قیادت میں میں سفر میں رہوں
نئی صدی کی نئی نسل جانتی ہی نہیں
صدائے حق میں رہوں تو سدا اثر میں رہوں
یہ حوصلہ بھی شب و روز مُجھ کو اُس نے دیا
فلک کو چُھونے پرندوں کے بال و پر میں رہوں
گرفت حرف کی جاوید لازمی ہے سمجھ
کسی کو زیر کروں کس کے میں زبر میں رہوں
جاوید احمد خان جاویدؔ
No comments:
Post a Comment