یوم پیدائش 04 فروری 1908
نظم انتظار
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے
خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا
اپنا ارمان برافگندہ نقاب آئے گا
نظریں نیچی کیے شرمائے ہوئے آئے گا
کاکلیں چہرے پہ بکھرائے ہوئے آئے گا
آ گئی تھی دل مضطر میں شکیبائی سی
بج رہی تھی مرے غم خانے میں شہنائی سی
پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آ ہی گئے
سجدے مسرور کہ معبود کو ہم پا ہی گئے
شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی
آپ کے آنے کی اک آس تھی اب جانے لگی
صبح نے سیج سے اٹھتے ہوئے لی انگڑائی
او صبا! تو بھی جو آئی تو اکیلی آئی
میرے محبوب مری نیند اڑانے والے
میرے مسجود مری روح پہ چھانے والے
آ بھی جا، تاکہ مرے سجدوں کا ارماں نکلے
آ بھی جا، تاکہ ترے قدموں پہ مری جاں نکلے
مخدوم محی الدین
No comments:
Post a Comment