یوم پیدائش 14 فروری 1925
زمانے پھر نئے سانچے میں ڈھلنے والا ہے
ذرا ٹھہر کہ نتیجہ نکلنے والا ہے
ابھی ہجوم عزیزاں ہے زیر تخت مراد
مگر زمانہ چلن تو بدلنے والا ہے
ہوئی ہے ناقۂ لیلیٰ کو سارباں کی تلاش
جلوس شہر کی گلیوں میں چلنے والا ہے
ضمیر اپنی تمنا کو پھر اگل دے گا
سمندروں سے یہ سونا اچھلنے والا ہے
نیا عذاب نئی صبحوں کی تلاش میں ہے
یہ ملک پھر نیا قاتل بدلنے والا ہے
صدائے صبح بشارت خبر سنائے گی
سلگ رہا ہے جو سینہ وہ جلنے والا ہے
نئے عذاب کی آمد ہے اور ہم ہیں وحیدؔ
عذاب دورۂ حاضر تو ٹلنے والا ہے
وحید قریشی
No comments:
Post a Comment