یوم پیدائش 14 فروری 1931
پتھر میں فن کے پھول کھلا کر چلا گیا
کیسے امٹ نقوش کوئی چھوڑتا گیا
سمٹا ترا خیال تو گل رنگ اشک تھا
پھیلا تو مثل دشت وفا پھیلتا گیا
سوچوں کی گونج تھی کہ قیامت کی گونج تھی
تیرا سکوت حشر کے منظر دکھا گیا
یا تیری آرزو مجھے لے آئی اس طرف
یا میرا شوق راہ میں صحرا بچھا گیا
وہ جس کو بھولنے کا تصور محال تھا
وہ عہد رفتہ رفتہ مجھے بھولتا گیا
جب اس کو پاس خاطر آزردگاں نہیں
مڑ مڑ کے کیوں وہ دور تلک دیکھتا گیا
حفیظ تائب
No comments:
Post a Comment