یوم پیدائش 04 فروری 1955
پیکرِحسن کی حشمت ہے تیری لاثانی
حدت عشق کی ندرت ہے میری لافانی
شام کی شاخ پہ یادوں کے پرندے آ کر
میری آنکھوں میں بڑھاتے ہے شررافشانی
نصف راتوں کو صبا درد جگا دیتی ہے
اور زخموں پر الٹ دیتی ہے نمکیں پانی
خون سے تر ہیں تمناؤں کے اجلے دامن
خیمۂ دل میں غموں کی ہے ستم سامانی
وصل کی جاہتیں اب میرے تصور میں نہیں
عمر کے ساتھ ہی کھوجاتی ہے سب تابانی
اب شب ہجر کی بے مہر ہو کچھ بھی مدت
مجھ کو دینی ہے محبت میں بڑی قربانی
حجرۂ دل سے گزرتا ہے اگر نقش پا
دل کے جذبات میں آجاتی ہے اک طغیانی
لب پر رکھتا ہوں سلگتی یہ لجاجت اختر
سجدۂ عشق میں رکھتا ہوں سدا پیشانی
اختر دربھنگوی
No comments:
Post a Comment