یوم پیدائش 03 فروری 1934
پاگل ہوا کے دوش پہ جنس گراں نہ رکھ
اس شہر بے لحاظ میں اپنی دکاں نہ رکھ
اس کا دیا ہوا ہے جسم اس کے سپرد کر
رکھنے کی اس ہوس میں تو دونوں جہاں نہ رکھ
اس کا زوال دیکھ کے وہ سلطنت نہ چھوڑ
اس زندگی میں لمحۂ سود و زیاں نہ رکھ
وہ فصل پک چکی تھی اب اس کا بھی کیا قصور
تجھ سے کہا تھا جیب میں چنگاریاں نہ رکھ
وہ جسم ہے تو اس کو فقط جسم ہی سمجھ
پردا کسی فریب کا پھر درمیاں نہ رکھ
آئے گی ہر طرف سے ہوا دستکیں لیے
اونچا مکاں بنا کے بہت کھڑکیاں نہ رکھ
وہ جسم کھل رہا ہے گرہ در گرہ نظرؔ
یہ تیر چوک جائے گا ڈھیلی کماں نہ رکھ
پریم کمار نظر
No comments:
Post a Comment