یوم پیدائش 16 فروری 1927
ہم دشت سے ہر شام یہی سوچ کے گھر آئے
شاید کہ کسی شب ترے آنے کی خبر آئے
معلوم کسے شہر طلسمات کا رستہ
کچھ دور مرے ساتھ تو مہتاب سفر آئے
اس پھول سے چہرے کی طلب راحت جاں ہے
پھینکے کوئی پتھر بھی تو احساں مرے سر آئے
تا پھر نہ مجھے تیرہ نصیبی کا گلا ہو
یہ صبح کا سورج مری آنکھوں میں اتر آئے
اب آگے علم اور کوئی ہاتھوں سے لے لے
ہم شب کے مسافر تھے چلے تا بہ سحر آئے
اصغر گورکھپوری
No comments:
Post a Comment