یوم پیدائش 15 فروری 1945
اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے
میرے ہونٹوں پہ مرے نام کا بوسہ رکھ دے
حلق سے اب تو اترتا نہیں اشکوں کا نمک
اب کسی اور کی گردن پہ یہ دنیا رکھ دے
روشنی اپنی شباہت ہی بھلا دے نہ کہیں
اپنے سورج کے سرہانے مرا سایہ رکھ دے
تو کہاں لے کے پھرے گی مری تقدیر کا بوجھ
میری پلکوں پہ شب ہجر یہ تارا رکھ دے
مجھ سے لے لے مرے قسطوں پہ خریدے ہوئے دن
میرے لمحے میں مرا سارا زمانہ رکھ دے
ہم جو چلتے ہیں تو خود بنتا چلا جاتا ہے
لاکھ مٹی میں چھپا کر کوئی رستہ رکھ دے
ہم کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسکؔ
جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے
نثار ناسک
No comments:
Post a Comment