در و دیوار سے گھر کے قرینے بات کرتے ہیں
مگر مہمان آجائے تو زینے بات کرتے ہیں
اگر ہم مصلحت کی آڑ لے کر چپ بھی ہو جائیں
ہماری دونوں آنکھوں کے نگینے بات کرتے ہیں
کسی صورت سے ہو جاتا ھے طوفانوں کا اندازہ
سمندر چپ بھی ہوجائے سفینے بات کرتے ہیں
فقیروں کی تو عادت ھے بہت خاموش رہتے ہیں
ذرا ان کو ٹٹولو تو دفینے بات کرتے ہیں
ذرا قرآن کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھو
یقینناٗ علم و حکمت کے خزینے بات کرتے ہیں
بہت مشکل سے ہر ساعت گزرتی ھے غریبی کی
فراغت میں ہواؤں سے مہینے بات کرتے ہیں
ضعیفی میں خود اپنی سانس بھی اک بوجھ لگتی ھے
جوانی میں تو جسموں کے پسینے بات کرتے ہیں
ظہیر ناصری
No comments:
Post a Comment