Urdu Deccan

Wednesday, March 10, 2021

قمر جلال آبادی

 لوگ کہتے ہیں کہ تہذیب جواں ہے یارو

کوئی سمجھائے کہ تہذیب کہاں ہے یارو


وہ عیاں ہوتے ہوئے بھی تو نہاں ہے یارو

کیا یقیں ہے کہ یقین پر بھی گماں ہے یارو


جو یہاں ہوگا فقط اُس کی رضا سے ہوگا

یہ جہاں اپنا نہیں اُس کا جہاں ہے یارو


ساری دنیا میں اُسے ڈھونڈ کے گھر لوٹے ہیں

اور آنگن ہی میں وہ جلوہ کناں ہے یارو


زندگی اُس کی وفا، موت جفا ہے اُس کی

جو مسیحا ہے وہی دشمنِ جاں ہے یارو


پھینکا دریا میں جو کنکر تو بڑا شور ہوا

دل کی گہرائی میں آواز کہاں ہے یارو


ایک ٹھوکر لگی کیا جانیے کیا ٹوٹ گیا

زندگی قرض کے شیشوں کی دوکاں ہے یارو


قمر جلال آبادی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...