لوگ کہتے ہیں کہ تہذیب جواں ہے یارو
کوئی سمجھائے کہ تہذیب کہاں ہے یارو
وہ عیاں ہوتے ہوئے بھی تو نہاں ہے یارو
کیا یقیں ہے کہ یقین پر بھی گماں ہے یارو
جو یہاں ہوگا فقط اُس کی رضا سے ہوگا
یہ جہاں اپنا نہیں اُس کا جہاں ہے یارو
ساری دنیا میں اُسے ڈھونڈ کے گھر لوٹے ہیں
اور آنگن ہی میں وہ جلوہ کناں ہے یارو
زندگی اُس کی وفا، موت جفا ہے اُس کی
جو مسیحا ہے وہی دشمنِ جاں ہے یارو
پھینکا دریا میں جو کنکر تو بڑا شور ہوا
دل کی گہرائی میں آواز کہاں ہے یارو
ایک ٹھوکر لگی کیا جانیے کیا ٹوٹ گیا
زندگی قرض کے شیشوں کی دوکاں ہے یارو
قمر جلال آبادی
No comments:
Post a Comment